Posts

مہیلا مہا ودیالیہ بی ایچ یو کی طالبات کے درمیان ہوا 'اردو بیت بازی' کا انعقاد

Image
وارانسی  بنارس ہندو یونیورسٹی کے مہیلا مہا ودیالیہ کے  ہیریٹیج  ہال میں منتھن کے بینر تلے 'اردو بیت بازی' کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں 5-5 طالبات پر مشتمل تین ٹیموں نے حصہ لیا۔ یہ پروگرام مہیلا مہا ودیالیہ کے اردو سیکشن کے زیراہتمام منعقد کیا گیا تھا۔  بیت بازی کے اس مقابلے کے لئے 15 طالبات کو میر، غالب اور فراق نامی ٹیموں میں منقسم کیا گیا تھا ۔ جج کی ذمہ داری پروفیسر رفعت جمال اور ڈاکٹر مشرف علی نے ادا کی۔  بیت بازی کے ٹیم مقابلے کا پہلا انعام میر، دوسرا انعام غالب اور تیسرا انعام فراق ٹیم کو دیا گیا۔ تینوں گروپوں کی طالبات نے بہترین اشعار پیش کر آڈیٹوریم میں موجود سبھی کا دل جیت لیا۔  ان  15 طالبات میں انفرادی کارکردگی کا پہلا انعام انکو نامی طالبہ کو ملا جبکہ ریتیکا سنگھ کو دوسرا اور سوناکشی یادو اور سواتی مشرا کو مشترکہ طور پر تیسرا انعام ملا۔ اس موقع پر پروفیسر رفعت جمال اور ڈاکٹر مشرف علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے طالبات کو مفید مشورے دیئے۔  اردو سیکشن کے انچارج ڈاکٹر افضل مصباحی نے بیت بازی کے اس پروگرام کی نظامت کے فرائض ادا کںۓ جبکہ ریسرچ اسکالر محمد اعظم نے مہما

بقاۓ باہمی کے فروغ کے لئے ملک میں آئین کی بالادستی ضروری

Image
کسی بھی ملک اور اجتماعی نظام کو چلانے، نظم و نسق   کو برقرار رکھنے اور پر امن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے مضبوط ومستحکم آئین کی ضروررت ہوتی ہے، یہی آئین کسی بھی مملکت کی بنیاد و اساس ہوتاہے، جس کا تحفظ پورے نظام کو انتشار سے بچانے اور حق دار تک اس کا حق پہونچانے میں ممدو معاون بنتاہے، اسی کے ذریعہ بنیادی نظریات وتصورات، اندورنی نظم ونسق کے اہم اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ان کے فرائض و اختیارات کی حدبندی وتعیین ہوتی ہے۔ شہری، سیاسی اور انسانی حقوق کے تحفظات کے لیے دستور و آئین کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی جو مملکت اور شہریوں کے حقوق کی پاس داری کر سکے۔   ہمارے ملک کے دستور کا نام ‘بھارت کاآئین’ ہے، جیساکہ دستور کی دفعہ 393 میں اس کا ذکرملتا ہے۔ ہمارے آئین کے دستوری مسودے کے آغاز میں جو جملے مرقوم ہیں وہ انتہائی چشم کشا اور بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادیٔ خیال، اظہار رائے، آزادیٔ عقیدہ و مذہب و ع

اردو انقلاب یا بغاوت کی نہیں، محبت کی زبان ہے

Image
 اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پرمنعقدہ تقریب  میں دانشوروں نے کہاکہ اردو زبان اور صحافت کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کرنا غلط   وارانسی۔       ایک بہتر ہندوستان کی تعمیر میں صرف اردو صحافت ہی سب سے اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔  اردو ایک ہندوستانی زبان ہے اور اسےکسی ایک مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔  یہ باتیں مقررین نے اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے موقع پر پراڑکر اسمرتی بھون میداگن میں سینٹر فار ہارمونی اینڈ پیس کے زیراہتمام ’’اردو صحافت کل اور آج‘‘ کے موضوع پر  منعقدہ سیمینار میں کہیں۔      صدارتی خطاب میں پروفیسر دیپک ملک نے کہا   اردو صحافت آج کے دور میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، کیوں کہ اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔  انہوں نے کہا کہ اردو اور ہندی میں فرق کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم ہو رہی ہے۔  آزادی سے پہلے اردو سب کی زبان تھی لیکن تقسیم کے بعد اسے ایک خاص مذہب کی زبان مان لیا گیا جب کہ اردو پاکستان کی زبان  نہیں  ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ آزادی میں اردو اخبارات کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔       بی ایچ یو کے پروفیسر آر کے منڈل نے کہا کہ صحافت زبان کی بندشوں سے آزاد ہے، صحافت کی بنیاد سچ

اردو صحافت کل اور آج موضوع پر سمینار کل

Image
وارانسی  سینٹر فار ہارمونی اینڈ پیس کے چیئر مین ڈاکٹر محمد عارف کے مطابق اردو صحافت کے دو سو سال  مکمل ہونے کے تناظر میں کل بروز اتوار ۱۸؍ دسمبر کو دوپہر دو بج ے پراڑکر اسمرتی بھون میداگن  میں ایک سیمینار بعنوان " اُردو صحافت کل اور آج "   کا انعقاد کیا گیا ہے. جس میں نامور دانشور اور صحافی حضرات اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔      ڈاکٹرمحمد عارف نے بتایا کہ مقررین میں خاص طور سے  پروفیسر آر کے منڈل، وشوناتھ گوگرن، پروفیسر دیپک ملک، ڈاکٹر افضل مصباحی، اجول بھٹا چاریہ، اے کے لاری، تنویر احمد ایڈووکیٹ، سید فرمان حیدر،  ریاض احمد، ڈاکٹر قاسم انصاری اور کے ڈی این راۓ وغیرہ اپنے خیالات کا اظہار  کریں  گے۔

نذیر بنارسی ہندوستانیت اور بنارس کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے

Image
  نذیر بنارسی کے یوم پیدائش پر ہوا آل انڈیا مشاعرہ اور کوی سمیلن کا انعقاد  وارانسی نذیر بنارسی اکیڈمی اور ڈاکٹر امرت لال عشرت میموریل سوسائٹی (سن بیم گروپ) کے زیراہتمام بنارس کے مشہور شاعر پدم شری نذیر بنارسی صاحب کے 113ویں یوم پیدائش کے موقع پر ناگری ناٹک منڈلی کبیر چورا، بنارس کے آڈیٹوریم میں منعقد پروگرام میں مقررین نے نذیر بنارسی کی گنگا جمنی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی اور انہیں ایک عظیم شاعر کے طور پر سراہا۔    اس موقع پر ملک کی نامور شخصیات کے ذریعے نذیر بنارسی کو لکھے گئے خطوط پر مبنی کتاب ’’نذیر بنارسی یادوں کے آئینے میں‘‘ کا اجراء بھی کیا گیا۔  سنکٹ موچن مندر کے مہنت اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ آئی ٹی کے پروفیسر وشمبھر ناتھ مشرا نے اپنی صدارتی تقریر میں نذیر صاحب اور اپنے والد پنڈت ویربھدر مشرا کی قربت کا ذکر کرتے ہوئے بہت سی یادوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ شاعر بھلے ہی مر جائے لیکن اس کے خیالات و نظریات شاعر کی تخلیق کی صورت میں زندہ رہتے ہیں اور ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔  مہمان خصوصی پوسٹ ماسٹر جنرل وارانسی ریجن کرشنا کمار یادو نے کہا کہ نذیر بنارسی صاح

نذیر بنارسی کی یوم پیدائش کے موقع ہوگا آل انڈیا مشاعرہ، شامل ہوں گے ملک کے چنندہ شعراء

Image
وارانسی      کل بروز پیر شام 5 بجے سے نذیر بنارسی اکیڈمی اور ڈاکٹر امرت لال عشرت میموریل سوسائٹی (سنبیم گروپ) کے مشترکہ زیر اہتمام بنارس کی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار مشہور شاعر پدم شری نذیر بنارسی کے 113 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ایک آل انڈیا مشاعرہ اور کوی سممیلن کا انعقاد ناگری ناٹک منڈلی کبیر چورا وارانسی میں کیا جائے گا۔ جس میں ملک کے نامور  شعراء شرکت کریں گے۔           ہلال بدایونی کی زیر نظامت ہونے والے مشاعرہ میں   ماجد دیوبندی دہلی، اظہر اقبال میرٹھ، افضل منگلوری، جمنا اپادھیائے ایودھیا، صبا بلرامپوری، مانسی دیویدی لکھنؤ، سجاد جھنجھٹ روڑکی، شاد عباسی اور ہری رام دیویدی بنارس اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں گے۔ مشاعرہ شروع ہونے سے قبل مشہور گلوکار وجے کپور اپنی آواز میں نذیر بنارسی صاحب کے چند کلام پیش کریں گے۔  اس تقریب کی شروعات نذیر بنارسی صاحب کے مجموعۂ کلام ’’نذیر بنارسی یادوں کے آئینے میں‘‘  کے اجراء سے کی جائے گی۔  رسم اجراء کی اس تقریب کے مہمان خصوصی  مہاتما گاندھی کاشی ودیا پیٹھ کے وائس چانسلر پروفیسر اے کے تیاگی ہوں گے جبکہ مہمان اعزازی کرشنا کمار یادو پوسٹ ماس

سورج یا چاند گرہن کے وقت کے مسنون اعمال

Image
     تحریر: مولانا ریاض احمد قادری    سورج یا چاند گرہن یہ الله تعالی کی قدرت کی نشانیاں ھیں، یہ ظاھر کرنے کے لئے جو قادرِ مطلق الله تعالی سورج سے روشنی دیتا ھے اور چاند سے چاندنی دیتا ھے وھی الله تعالی ان کو ماند  کردینے پر بھی قادر ھے۔ رسول الله ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے *حضرت ابراھیم* رضی الله عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ھوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات  یا پیدائش کی وجہ سے ھوتا ھے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ھوا تو آپ ﷺ نے اس  عقیدے کی نفی فرمائی۔ *بخاری شریف* میں ھے  "حضرت ابو بردہ، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ھیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ھوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ھوئے کھڑے ھوئے جیسے قیامت آگئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ھوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ھیں جو الله بزرگ و برتر بھیجتا ھے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ھوتا ھے، بلکہ الله تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ھے، جب تم اس کو د