بقاۓ باہمی کے فروغ کے لئے ملک میں آئین کی بالادستی ضروری
کسی بھی ملک اور اجتماعی نظام کو چلانے، نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور پر امن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے مضبوط ومستحکم آئین کی ضروررت ہوتی ہے، یہی آئین کسی بھی مملکت کی بنیاد و اساس ہوتاہے، جس کا تحفظ پورے نظام کو انتشار سے بچانے اور حق دار تک اس کا حق پہونچانے میں ممدو معاون بنتاہے، اسی کے ذریعہ بنیادی نظریات وتصورات، اندورنی نظم ونسق کے اہم اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ان کے فرائض و اختیارات کی حدبندی وتعیین ہوتی ہے۔ شہری، سیاسی اور انسانی حقوق کے تحفظات کے لیے دستور و آئین کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی جو مملکت اور شہریوں کے حقوق کی پاس داری کر سکے۔
ہمارے ملک کے دستور کا نام ‘بھارت کاآئین’ ہے، جیساکہ دستور کی دفعہ 393 میں اس کا ذکرملتا ہے۔ ہمارے آئین کے دستوری مسودے کے آغاز میں جو جملے مرقوم ہیں وہ انتہائی چشم کشا اور بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادیٔ خیال، اظہار رائے، آزادیٔ عقیدہ و مذہب و عبادات، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھاجائے گا۔
بھارت کے آئین کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کا سب سے طویل آئین ہے، جس میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔
ملک کا یہ دستوراپنی بہت سی خوبیوں اور کچھ خامیوں کے باوجود دنیا کے بہترین دستور میں شما ر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جس قدر پامالی و بے حرمتی دستورہند کی کی گئی شاید ہی دنیا کے کسی دستور کی کی گئی ہو۔اور جتنا اس دستور کے الفاظ و معانی، مطالب ونتائج سے کھلواڑ کیا گیا دنیا کے کسی ملک کے دستور کے ساتھ نہیں کیا گیا ہوگا۔
حکمراں طبقہ نے عوام کو آئین کی طاقت اور اس کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہونے دیا اور عوام نے بھی کبھی دستور کے مکمل نفاذ کے بارے میں کوئی پرزور تحریک نہیں چلائی، خصوصاََ مسلمانوں نے تو اس سلسلہ میں کافی کوتاہی برتی ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے بھارت میں ثقافتی فاشزم کو سیکولرزم کے سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے اور ایک مذہب کے عقائد کو ملک کے استحکام ویک جہتی کے نام پر جبراََ مسلط کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں جو کہ ہمارے آئین کے منشا کے خلاف ہے۔
ہمارے آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کی مختلف دفعات کے باوجود بڑے پیمانے پروطن عزیز میں انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی ہور ہی ہے، کہیں بولنے پر پابندی ہے تو کہیں کھانے اور لباس پر پابندی ہے۔ کبھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے، تو کبھی مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی ناپاک کوشش ہورہی ہے۔
ہمارا ملک مختلف تہذیبوں کا امین اور مختلف تعلیمی نظریات کا گہوارہ ہے اسی وجہ سے یہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام ہی لوگوں کو اپنی تہذیب وثقافت اور علم و ادب کی حفاظت کرنے اور اسکو فروغ دینے کے جو آئینی حقوق حاصل ہیں ان پر عملدرآمد کرنے سے نہ روکا جائے ۔
ہمارے ملک کے باوقار آئین میں جس طرح سے عوام الناس کو بالادستی حاصل ہے اور یہاں کے رہنے والوں کے بنیادی حقوق کا جس طرح لحاظ رکھا گیا ہے اس بنا پر بلا خوف و تردد یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاس دار اور اس کا سچا علمبردار ہے۔ ضرورت صرف اس کے غیرجانب دارانہ اور عادلانہ نفاذ کی ہے، جس کے لیے انتھک محنت و مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
چونکہ ۔۔۔ یہی ہمارا ملک ہے۔ ہمیں یہیں مرنا اور یہیں جینا ہے، تو پھر سرزمین ہند کی جو اصل خاصیت ہے، جمہوریت، امن اور بھائی چارگی، وہ ہرحال میں سلامت رہے۔ ہمیں ہر حال میں اس کا خیال رکھنا ہے اور اسکے لئے کوشش کرنا ہے۔
بہت عمدہ تحریر 👍
ReplyDelete