غزوۂ بدر ، یوم الفرقان

 حق و باطل کا پہلا معرکہ، غزوہ بدر  جو ۱۷ رمضان کو پیش آیا 

 تحریر : محمد قمر الزماں ندوی 



      غزوہ بدر ۱۷/ رمضان ۲ ہجری کو پیش آیا، یہ اسلام کا پہلا اور فیصلہ کن جنگ تھا،جس میں اسلام نے کفر کو شکست فاش دی۔ قرآن مجید میں اس کو یوم الفرقان کہا گیا ہے، اس غزوہ کی تفصیل قرآن و حدیث میں تفصیل سے موجود ہے۔ ۱۷/ رمضان المبارک  غلبہ اسلام اور کفر کی شکست اور پسپائی کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں ہمت، حوصلہ، بہاری،عزیمت اور شجاعت کا پیغام دیتا ہے۔ یہ دن اور تاریخ ہمیں افراد، ساز و سامان اور طاقت و قوت پر نظر کیے بغیر ۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ کی راہ میں ڈٹ جانے کا حوصلہ بخشتا ہے ۔ اور 

اللہ کے دین اور کلمے کو بلند کرنے کا جذبہ پروان چڑھاتا ہے۔ اور یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ کیا تھے اور کس بلندی پر تھے اور ہم کیا ہیں اور کہاں پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔ 

وہ تین سو تیرہ تھے تو لرزتا تھا زمانہ

آج ہم کروڑوں میں ہیں تو کرتے غلامی 

        غزوہ بدر دو ہجری رمضان المبارک کی سترہ تاریخ کو پیش آیا، یہ جمعہ کی رات تھی، صبح نمودار ہوئی تو قریش اپنے تمام جنگی دستوں کے ساتھ سامنے آچکے تھے اور دونوں فریق صف آراء تھے۔ اس موقع پر رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ، یہ قریش کے لوگ آج اپنے غرور و تکبر اور نخوت و گھمنڈ کے ساتھ آئے ہیں انہیں اپنے افرادی قوت اور جنگی ساز و سامان پر بھروسہ ہے، یہ تجھ سے جنگ پر آمادہ ہیں اور تیرے رسول کو جھوٹا ٹھہرا رہے ہیں۔

   رسول اللہ ﷺ نے صفیں درست فرمائی پھر عریش جھوپڑی  میں واپس تشریف لائے اور اللہ کے حضور گریہ و زاری اور دعا و مناجات کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔ آپ نے اس چھوٹے سے اسلامی لشکر جو ہر قسم کے ساز و سامان سے محروم تھا کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سفارش فرمائی، آپ نے فرمایا اللھم ان تھلک ھذہ العصابة لاتعبد بعدھا فی الارض۔ اے اللہ اگر آج تو نے اس مٹھی بھر جماعت کو فنا کردیا تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رح،، ۔۔ : 

 ،،آنحضرتﷺ نے ان چند پاکیزہ نفوس کے لیے اس نازک لمحہ میں جن مختصر الفاظ کے ساتھ دعا کی، اس میں آپ کا ناز و اعتماد اضطراب و بے قراری اطمنان قلب اور سکینت اور عجز و احتیاط کے تمام پہلو بیک وقت جلوہ گر تھے۔ یہ اس امت کا بہترین و صحیح تعارف ، اقوام عالم میں اس کے اصل مقام و پیغام اور دنیا کے بازار میں اس کی قیمت، افادیت اور ضرورت کی پوری وضاحت و تعین کے ساتھ نشان دہی تھی اور اس بات کا اظہار و اعلان تھا کہ یہ امت جس سرحد یا محاذ کی حفاظت پر مامور ہے، وہ دعوت الی اللہ اور اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت اور کامل اطاعت کا محاذ ہے،،

 (نبی رحمت ۲۸۹-۲۸۸) ۔۔ 

  حضرت مولانا علی میاں ندوی رح اس غزوہ پس منظر میں لکھتے ہیں؛ 

    اس فتح مبین نے(جس نے تمام اندازوں اور تجربات کو غلط ثابت کر دکھایا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ پر ہمیشہ کے لیے مہر تصدیق ثبت کردی، اور اس کا عملی ثبوت فراہم کردیا کہ یہ بات حرف بحرف درست تھی، اور اس امت کی صحیح، سچی اور بولتی ہوئی تصویر ہے۔ 

    یہ جنگ مسلمانوں کی فتح مبین اور مشرکین کی ذلت آمیز شکست پر ختم ہوئی، کفر کا غرور خاک میں مل گیا اور اس کی بولتی بند ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار تشکر کے لیے فرمایا،، 

اللہ اکبر، الحمدللہ الذی صدق وعدہ و نصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ۔ خدا کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اپنے بندہ کی مدد فرمائی اور تنہا ساری ٹولیوں اور گروہوں کو شکست دی۔ 

قرآن پاک نے اس کیفیت اور حالت کی ترجمانی اس طرح بیان کی ہے۔ 

ولقد نصر کم اللہ ببدر الخ۔ 

اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بے سرو سامان تھے، پس خدا سے ڈرو اور ان احسانوں کو یاد کرو تاکہ شکر ادا کرسکو۔ 

      غرض بدر کی جنگ وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ ہوئی، جس پر امت مسلمہ کی تقدیر اور دعوت حق کے مستقبل کا فیصلہ ہوا، جس پر پوری نسل انسانی کا انحصار تھا۔ 

   اس کے بعد سے آج تک مسلمانوں کو جتنی فتوحات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ان کی جتنی حکومتیں قائم ہوئیں وہ سب اسی فتح مبین کی رہین منت ہیں، جو بدر کے میدان میں اس قلیل اور مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اس جنگ کو یوم الفرقان قرار دیا فیصلہ کن دن سے تعبیر کیا۔ 

  ان کنتم امنتم باللہ و ما انزلنا علی عبدنا یوم الفرقان یوم التقی الجمعان۔ سورہ انفال۔ 

     اگر تم خدا پر اور اس کی نصرت پر ایمان رکھتے ہو، جو حق و باطل میں فرق کرنے کے دن یعنی جنگ بدر میں جس دن دونوں فوجوں میں مٹھ بھیڑ ہوگئی اپنے بندے محمد پر نازل فرمائی۔ 

              اس جنگ سے اور اس فتح مبین سے ہمیں یہ سبق ملا کہ ہم کو کبھی افراد اور ساز و سامان کی زیادتی نیز دشمنوں کی کثرت اور طاقت سے گھبرانا نہیں چاہیے، فتح و شکست یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے ذلت دے اور جسے چاہے عزت اور فتح سے ہمکنار کرے ۔ 

   جنگ کے لیے ظاہری تدبیر اور دنیاوی اسباب نیز آلات و وسائل کی جتنی کوشش کرسکتے ہیں اتنا کرنا ضروری ہے، لیکن ان ظاہری اسباب اور ساز و سامان پر مکمل بھروسہ کرنا درست اور صحیح نہیں ہے، اس کے ساتھ دعا اور خدا کے حضور نصرت و مدد کی گہار لگانا اور اس کے سامنے رونا گڑگڑانا اور آہ و زاری کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کو ہم پر ترس آ جائے اور دشمن پر ہم کو غلبہ نصیب کردے ۔ 

         اس جنگ سے یہ سبق ملا کہ مومن کو حوصلہ اور ہمت و حوصلہ والی زندگی گزارنی چاہیے، حالات اور مسائل سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ 

    اس جنگ سے یہ سبق بھی ملا کہ آج پھر اگر مومن    اپنے اندر ایمانی شان اور مخلصانہ کردار پیدا کرلیں تو آج بھی فرشتے ہماری نصرت کو اتر سکتے ہیں اور فتح و کامرانی ہمارا نصیبہ ہوسکتی ہے۔ 

     فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو 

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Comments

Popular posts from this blog

مہیلا مہا ودیالیہ بی ایچ یو کی طالبات کے درمیان ہوا 'اردو بیت بازی' کا انعقاد

نذیر بنارسی کی یوم پیدائش کے موقع ہوگا آل انڈیا مشاعرہ، شامل ہوں گے ملک کے چنندہ شعراء