سورج یا چاند گرہن کے وقت کے مسنون اعمال
تحریر: مولانا ریاض احمد قادری
سورج یا چاند گرہن
یہ الله تعالی کی قدرت کی نشانیاں ھیں، یہ ظاھر کرنے کے لئے جو قادرِ مطلق الله تعالی سورج سے روشنی دیتا ھے اور چاند سے چاندنی دیتا ھے وھی الله تعالی ان کو ماند کردینے پر بھی قادر ھے۔ رسول الله ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے *حضرت ابراھیم* رضی الله عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ھوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات یا پیدائش کی وجہ سے ھوتا ھے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ھوا تو آپ ﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔ *بخاری شریف* میں ھے
"حضرت ابو بردہ، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ھیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ھوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ھوئے کھڑے ھوئے جیسے قیامت آگئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ھوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ھیں جو الله بزرگ و برتر بھیجتا ھے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ھوتا ھے، بلکہ الله تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ھے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا و استغفار کی طرف دوڑو“۔
لہذا چاند گرہن اور سورج گرہن کے وقت ھمیں تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات کے مطابق الله تعالی کی طرف متوجہ ھوکر نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ھونا چاھئے۔
صحيح البخاري (2/ 39)
"حدثنا محمد بن العلاء، قال حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال : خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه و سلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام و ركوع و سجود مارأيته قط يفعله، و قال : «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد و لا لحياته، و لكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك، فافزعوا إلى ذكره و دعائه و استغفاره»''۔
چاند گرہن اور سورج گرہن کی نماز
چاند گرہن کو "خسوف" کہتے ھیں، اور چاند گرہن کے وقت دو رکعت نماز دیگر نوافل کی طرح انفراداً پڑھنا مسنون ھے، اس میں جماعت مسنون نہیں ھے، اس کا طریقہ عام نوافل کی طرح ھے، کسی بھی اعتبار سے فرق نہیں، سوائے اس کے کہ نیت *صلاۃ الخسوف* کی ھوگی۔
الفتاوى الهندية (1/ 153)
'' يصلون ركعتين في خسوف القمر وحداناً، هكذا في محيط السرخسي''۔
اور سورج گرہن کو *کسوف* کہتے ھیں، سورج گرہن کے وقت بھی دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ھے، ہاں اگر تنہا پڑھ رھا ھو تو دو سے زیادہ بھی (چار، چھ)جتنی چاھیں پڑھ سکتے ھیں۔
اس کی نماز کا بھی وھی طریقہ ھے جو عام نوافل کا ھے، اگر حاضرین میں جامع مسجد کا امام موجود ھو تو *کسوف* یعنی سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاھئے، اور اس نماز کے لئے اذان اور اقامت نہیں ھے، اگر لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جمع کرنا مقصود ھو تو اعلان کردیا جائے، نیز اس نماز میں سورۂ بقرہ یا اس جیسی بڑی سورہ پڑھنا یعنی طویل قراءت اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے کرنا مسنون ھے، اور اس نماز میں قراءت آھستہ آواز سے کی جائے گی۔ نماز کے بعد امام دعا میں مصروف ھو جائے اور سب مقتدی آمین آمین کہیں، یہاں تک سورج گرہن ختم ھو جائے۔
ھاں اگر ایسی حالت میں سورج غروب ھوجائے یا کسی نماز کا وقت ھو جائے تو دعا ختم کرکے وقتی فرض نماز میں مشغول ھو جانا چاھئے۔اسی طرح مکروہ اوقات میں سورج گرہن ھو جائے تو یہ نماز نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ صرف دعا کرلی جائے ۔
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 181، 182)
''(يصلي بالناس من يملك إقامة الجمعة)، بيان للمستحب، وما في السراج : لا بد من شرائط الجمعة إلا الخطبة، رده في البحر، عند الكسوف (ركعتين)، بيان لأقلها، وإن شاء أربعاً أو أكثر، كل ركعتين بتسليمةٍ أو كل أربع، مجتبى، وصفتها : (كالنفل) أي بركوع واحد في غير وقتٍ مكروهٍ، بلا أذان و لا إقامة و لا جهر و لا خطبة، وينادي : الصلاة جامعة؛ ليجتمعوا، ويطيل فيها الركوع و السجود و القراءة و الأدعية و الأذكار الذي هو من خصائص النافلة، ثم يدعو بعدها جالساً مستقبلَ القبلة أو قائماً مستقبل الناس و القوم يؤمِّنون، حتى تنجلي الشمس كلها، وإن لم يحضر الإمام للجمعة صلى الناس فرادى في منازلهم تحرزاً عن الفتنة، كالخسوف للقمر ۔
قوله : من يملك إقامة الجمعة، وعن أبي حنيفة في غير رواية الأصول : لكل إمام مسجد أن يصلي بجماعة في مسجده، و الصحيح ظاهر الرواية: و هو أنه لا يقيمها إلا الذي يصلي بالناس الجمعة، كذا في البدائع، نهر۔ (قوله: بيان للمستحب) أي قوله: يصلي بالناس بيان المستحب، وهو فعلها بالجماعة، أي إذا وجد إمام الجمعة، وإلا فلا تستحب الجماعة، بل تصلى فرادى؛ إذ لا يقيمها غيره كما علمته، (قوله: رده في البحر) أي بتصريح الإستيجابي بأنه يستحب فيها ثلاثة أشياء : الإمام، و الوقت أي الذي يباح فيه التطوع، و الموضع أي مصلى العيد أو المسجد الجامع. اهـ. قوله: الإمام أي الاقتداء به. و حاصله: أنها تصح بالجماعة و بدونها، و المستحب الأول، لكن إذا صليت بجماعة لا يقيلها إلا السلطان و مأذونه كما مر أنه ظاهر الرواية، و كون الجماعة مستحبةً، فيه رد على ما في السراج من جعلها شرطاً كصلاة الجمعة، (قوله: عند الكسوف)، فلو انجلت لم تصل بعده، و إذا انجلى بعضها جاز ابتداء الصلاة، و إن سترها سحاب أو حائل صلى؛ لأن الأصل بقاؤه، و إن غربت كاسفةً أمسك عن الدعاء و صلى المغرب، جوهرة۔ (قوله: و إن شاء أربعاً أو أكثر إلخ) هذا غير ظاهر الرواية، و ظاهر الرواية هو: الركعتان ثم الدعاء إلى أن تنجلي، شرح المنية.
قلت: نعم في المعراج و غيره: لولم يقمها الإمام صلى الناس فرادى ركعتين أو أربعاً، و ذلك أفضل، (قوله: أي بركوع واحد) و قال الأئمة الثلاثة: في كل ركعة ركوعان، و الأدلة في الفتح وغيره، (قوله: في غير وقت مكروه)؛ لأن النوافل لا تصلى في الأوقات المنهي عن الصلاة فيها، و هذه نافلة، جوهرة'' ۔فقط والله اعلم
Comments
Post a Comment