مالداروں کے لئے صدقۂ فطر میں گیہوں کا نصاب مناسب نہیں

 صدقۂ فطر  کی حکمت اور احکام و مسائل 

   تحریر: محمد قمرالزماں  ندوی 

  


         صدقۂ فطر  در اصل روزہ میں واقع ہونے والی کوتاہی اور نقص و کمی کی تلافی اور غرباء کو عید الفطر کے موقع پر اپنی خوشی و مسرت میں شریک کرنے کا ذریعہ ہے، اسی لئے ہر صاحب نصاب پر یہ صدقۂ فطر واجب ہے ۔   

مذہب اسلام اور شریعت اسلامی کا مزاج یہ ہے کہ جب بھی   کوئی عید و تہیوار اور خوشی و مسرت کا موقع آئے تو صرف امیروں اور مالداروں کے دولت کدہ اور محلوں ہی میں خوشی و مسرت اور فرحت و شادمانی کا چراغ اور قمقمے نہ جلے، بلکہ ضرورت مندوں، غریبوں، محتاجوں اور ناداروں کے غربت کدہ اور جھونپڑیوں میں بھی خوشی و مسرت کی روشنی پہنچے اور قمقمے جلیں ۔ اسی لئے شریعت میں ہر ایسے موقعہ پر سماج کے غریب اور محتاج افراد کو یاد رکھنے اور اپنی خوشی میں شریک کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اسی لئے  بقرعید کے موقع پر بھی قربانی میں ایک تہائی حصہ غریبوں کا حق قرار دیا گیا ہے ۔

ولیمہ کے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا 

جس ولیمہ میں سماج کے مالداروں امیر لوگوں کو بلایا جائے اور  غریبوں کو نظر انداز کر دیا جائے وہ بدترین ولیمہ ہے ۔ 

غرض اسلام نے *عید الفطر* کی خوشی میں غرباء اور مساکین کو شریک کرنے کے لئے اور روزے میں پیش انے والی کمیوں اور کوتاہیوں کی تلافی اور بھرپائی کے لئے صدقۂ فطر کو ہر صاحب نصاب پر لازم قرار دیا ہے ۔ 

       حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت پر صدقۂ فطر کو فرض کیا ہے ،جو ایک صاع کجھور یا جو ہونا چاہئے ( بخاری ،۱۵۱۱)  صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اہتمام سے صدقۂ فطر ادا کرتے تھے ( بخاری شریف ۱۵۰۶)

روایت میں آتا ہے عمرو بن شعیب حدیث کے  راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک شخص کو  مکہ بھیجا کہ مکہ کے گلی کوچوں میں اعلان کردے کہ صدقۂ فطر واجب ہے ۔ (ترمذی جلد ، ۱ باب ما جاء فی صدقة الفطر)

 زکوة ہی کی طرح صدقة الفطر نکالنے کا حکم *ہجرت* کے دوسرے سال آیا ۔ اور جیسا کہ بتایا گیا اس کا ایک مقصد محتاج اور غرباء کی مدد کرنا ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ روزوں میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہو اس صدقہ کے زریعہ اس کی تلافی ہوجائے ۔ 

         یہ حقیقت ہے کہ روزہ دار روزہ کی حالت میں اگر چہ مجسم نیکی اور تقوی و طہارت کی کیفیت میں ہوتا ہے، اس کے مادی جسم میں ملکوتی یعنی فرشتوں جیسی روح پیدا ہوجاتی ہے وہ جھوٹ ،بدگوئی، لا یعنی، چغلی ، بدکلامی ایذا رسانی اور حق تلفی اور ہر طرح کی برائیوں سے دور رہتا ہے ، یا کم از کم دور رہنے کی کوشش اور  اس کے لئے جدوجہد کرتا ہے ۔ لیکن پھر بھی وہ انسان ہے فرشتہ نہیں، اور انسان خطا و چوک اور لغزش کا مرکب و مجموعہ ہے، اس لئے ہزار کوششوں کے باوجود اس سے غلطیاں اور لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں ۔ زبان سے بے ہودہ اور لا یعنی باتیں نکل ہی جاتی ہیں اس لئے قدرتی طور پر روزوں کا بالکل بے داغ اور ہر نقص و عیب اور کمی و کوتاہی سے پاک رہنا ممکن نہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب حضرت  محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زریعہ سے روزہ داروں کو اس طرح کے داغ دھبوں سے پاک و صاف کرنے کے لئے صدقۂ فطر کو ادا کرنے کا حکم دیا ۔

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوة فطر مقرر فرمائی کہ لغو اور بے ہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اور مساکین کے خورد و نوش کا انتظام ہو جائے ۔   

        ویسے فطر کے معنی روزہ افطار کرنے اور کھولنے کے ہیں، رمضان المبارک کے روزوں سے فراغت کے بعد اللہ تعالی نے اپنے مسلمان بندوں پر ایک صدقہ لازم کیا ہے ، جسے ۰۰صدقۂ فطر۰۰ کہا جاتا ہے ، بعض علماء اور اہل علم نے صدقۂ فطر کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۰۰ فطر۰۰ کے معنی خلقت اور ذات کے ہیں، گویا یہ آدمی کی ذات اور نفس کا صدقہ ہے ۔ ۰۰صدقۂ فطر ۰۰ کی تعبیر اسلامی ہے ،اس لئے علامہ نووی رح نےلکھا ہے

*ھی لفظة مولدة لا عربیة ولا معربة بل ھی اصطلاحیة للفقھاء* ( العمدة للعینی ؛ ۹/۱۰۷)  یعنی یہ عربی زبان میں ایک نیا لفط ہے ،نہ عربی ہے اور نہ معرب بلکہ فقہاء اسلام کا اصطلاحی لفظ ہے ۔ علامہ عینی رح نے لکھا ہے کہ ۔۔ اسلامی لفظ ۔۔ کہنا زیادہ بہتر ہے ۔

         ۰۰صدقۂ فطر۰۰ کے دوسرے نام بھی ہیں، لیکن وہ سب زیادہ مشہور و معروف نہیں ہیں ۔ جیسے  زکوة الفطر، زکوة رمصان، زکوة الصوم، زکوة الابدان، صدقة الصوم اور صدقة الروؤس وغیرہ (فقیہ عصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی ایک تحریر سے مستفاد) 

       اگر غور کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اسلام کا جامع اور مانع تعارف صرف ایک جملہ میں کرایا جائے، جس سے اسلامی تعلیمات و ہدایات کا خلاصہ اور نچوڑ سامنے آجائے تو میرے حساب سے وہ تعبیر اور جملہ یہ ہوسکتا ہے کہ  مذہب اسلام کا خلاصہ خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت ہے ۔ 

       سچائی یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات و ہدایات میں سب سے زیادہ زور ان ہی دو چیزوں پر ہے ،اگر تمام عبادتوں کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اس کی گہرائی و گیرائی میں جائیں گے نیز اس کے اسرار و رموز کا باریک بینی سے مطالعہ کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کا حاصل اور مقصد تخلیق انسانیت کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ بندہ خدائے وحدہ لا شریک کے سامنے جبین نیاز خم کردے، اس کے حکموں کے آگے سر تسلیم خم کردے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے *وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون* ہم نے انسانوں اور جناتوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ 

        لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالی نے مخلوق کی خدمت اور انسانیت کے کام آنے کو بہت اونچا مقام بتایا اور حکم دیا کہ  جہاں جہاں ( زیادہ تر مقامات پر) عبادت میں نقص اور کمی واقع ہو جائے وہاں کفارہ، فدیہ اور ہرجانے کے طور پر غلام آزاد کرے یا ساٹھ یا کہیں دس مسکین کو کھانا کھلائے وغیرہ ۔

یہی وجہ ہے کہ قسم ،ظہار ،ایلاء اور روزہ کے کفارہ میں مخلوق کی خدمت و نصرت ان کے گردن کو آزاد کرانے کو عبادت و معاشرت میں کمی کی صورت میں کفارہ قرار دیا گیا ہے ،اسی طرح حج کے بعض اعمال میں کوتاہی اور زیادتی کی صورت میں دیت اور دم کو لازم کیا گیا ہے، جس کا مقصد بھی مخلوق کی خدمت ہی ہے ۔   

 صدقۂ فطر کی تہہ میں اور اس کے وجوب و فرضیت  کی حکمت میں بھی خلق خدا کی خدمت ہی پیش نظر ہے ۔ 

 ان تفصیلات کے بعد اب ہم اپنے قارئین کی خدمت میں  ۰۰صدقۂ فطر ۰۰ کے بعض ضروری احکام و مسائل کو بیان کر رہے ہیں تاکہ استحضار رہے اور وقت ضرورت مسائل بیان کرنے میں کام آئے ۔ 

            پہلا سوال یہ ہے کہ صدقئہ فطر کن لوگوں پر واجب ہے؟ اس سلسلہ میں حکم شریعت یہ ہے کہ بنیادی ضروریات کے علاوہ جو بھی مسلمان نصاب کے بقدر مالک ہوگا اس پر صدقۂ فطر واجب ہوگا ،خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم،  مرد ہو یا عورت،نابالغ ہو یا بالغ ۔ 

فقہاء کرام صدقۂ فطر کے وجوب کے سلسلہ میں اس حدیث شریف کو اپنا مستدل بناتے ہیں ۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مکہ کی گلیوں میں ایک منادی بھیجا کہ اعلان کر دے کہ آگاہ ہو جاو ! ہر مسلمان پر صدقۂ فطر واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت ،آزاد ہو یا غلام چھوٹا ہو یا بڑا ۔ ( ترمذی ،باب ماجاءفی صدقة الفطر 

صدقۂ فطر مالداروں پر واجب ہے اور غرباء اس کا مصرف ہیں ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :مال دار سے مراد وہ لوگ ہیں، جن کے پاس اپنی بنیادی ضروریاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکان کپڑے، گھر کا ضروری سامان ،استعمال کی سواری وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔ کے علاوہ کوئی چیز نصاب زکوة کی قیمت کی موجود ہو، زکوة اور صدقة الفطر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زکوۃ کچھ مخصوص مالوں ہی میں واجب ہوتی ہے ،یعنی: سونا چاندی ،مال تجارت، بعض جانور اور زرعی پیداوار، اگر کسی کے پاس ڈھیر ساری زمینین ہوں ،کئ مکانات ہوں، مگر بیچنے کے لئے نہیں رکھے گئے ہوں تو ان میں زکوة واجب نہیں ہوگی ،لیکن صدقة الفطر کے لئے مخصوص اموال کا ہونا ضروری نہیں، کوئی بھی مال نصاب زکوة کی قیمت کا موجود ہو تو صدقة الفطر واجب ہو جائے گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،  کہ جس شخص کے پاس دولت نہ ہو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں؛  لا صدقة الا عن ظھر غنی،شریعت نے دولت مندی کا معیار نصاب زکوة کے بقدر مال کو قرار دیا ہے۔                                

      یکم شوال المکرم یعنی عید الفطر کی صبح صادق کے وقت جو مسلمان زندہ ہو اور ضرورت سے زائد ایسے نصاب کا مالک ہو جس پر زکوة واجب ہو جاتی ہے، یا اس کے گھر میں روز مرہ کے استعمال کی چیزوں سے زائد ایسا سامان ہو جو ساڑھے باون تو چاندی برابر (۳۵/ ۶۱۲ گرام ) یا ساڑھے سات تو سونا برابر ( ۴۷۹/ ۸۷ گرام) کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو پھر اس پر صدقۂ فطر واجب ہے، خواہ اس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں ۔ غیر روزہ دار پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے، کیونکہ وجوب صدقۂ فطر کے لئے محض مسلمان ہونا شرط ہے، نہ کہ روزہ رکھنا بھی،اس لئے کہ روزہ مستقل فریضہ ہے اور صدقۂ فطر الگ مستقل واجب ہے ۔ پس روزہ نہ رکھنے کا گناہ ہوگا اور صدقۂ فطر نکالنے سے اس کے ذمہ سے ایک وجوب ساقط ہو گا اور اس کا ثواب اس کو ملے گا ۔ البتہ روزہ کی قبولیت اور اس کی کمی کی تلافی کا مقصد حاصل نہ ہونا ظاہر ہے لیکن اس کے علاوہ صدقۂ فطر کے ثواب اور فوائد ان شاءاللہ حاصل ہوں گے ۔ 

    صدقة الفطر اپنی طرف سے اور نابالغ بچوں کی طرف سے  ادا کرنا واجب ہے، بالغ لڑکے ،لڑکیاں، بیوی ،اس کے زیر پرورش چھوٹے بھائی بہن اور والدین کی طرف سے صدقة الفطر ادا کرنا واجب نہیں ہے، لیکن ہندوستانی سماج اور معاشرہ میں بیوی اور شوہر کا مال ملا جلا ہوتا ہے اور بالغ لڑکے جب تک ماں باپ کی کفالت میں ہوتے ہیں اور تعلیم وغیرہ میں مشغول ہوتے ہیں، تو ان کی بھی ساری ذمہ داریاں گھر کا ذمہ دار اور مکھیا خود ہی انجام دیتا ہے ،یہی حال ان چھوٹے بھائی، بہن اور والدین کا ہے جن کی کفالت گھر کا کوئی مرد انجام دیتا ہو، اس لئے بہتر ہے کہ ان سب کی طرف سے بھی صدقة الفطر ادا کیا جائے ۔ جس غلام کو اپنی خدمت کے لئے رکھا جائے نہ کہ بیچنے کے ارادہ سے ہو، اس کا صدقۂ فطر نکالنا بھی مالک پر ضروری ہے ۔ آج کے زمانہ میں گھر میں خادم اور خادمہ رکھنے کا رواج عام ہے، یہ اگر چہ غلام نہیں ہوتے ۔ خادم ہوتے ہیں لیکن یہ بھی انسان کو وہی سہولت اور آرام پہنچاتے ہیں جو اس زمانہ میں غلام پہنچایا کرتے تھے، اس لئے بہتر ہے کہ ان کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرنا چاہئے اگر واجب نہ بھی ہو تو باعث اجر و ثواب ضرور ہوگا ۔ 

 صدقۂ فطر کے مصارف بھی تقریبا وہی ہیں جو زکوة کے مصارف ہیں، جن لوگوں کو زکوة نہیں دی جاسکتی ،ان کو صدقة الفطر بھی نہیں دیا جاسکتا ،البتہ اس اعتبار سے ایک فرق ہے کہ زکوۃ غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی ،صدقۂ فطر ان کو بھی دیا جاسکتا ہے ۔ ( بدائع الصنائع :۲/۴۹ / ) 

      بعض علماء اور اہل علم کی رائے ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں جہاں ہندو مسلم منافرت میں دن بدن شدت اور اضافہ ہوتا جارہا ہے ،دوریاں بڑھتی جارہی ہیں، فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں، مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے اور یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ مسلمان صرف اپنے لئے سوچتا اور جیتا مرتا ہے، دوسروں کے لئے اس کے مال میں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سراسر غلط تصور ہے، تو اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے اور وقت اور حالات کے پیش نظر اس منافرت کو کم کرنے کے لئے اگر کہیں صدقة الفطر کے مد سے غیر مسلم حضرات کی بھی تالیف قلب کے لئے  نصرت کر دی جائے، تو یہ بہت ہی حکمت اور دانشمندی کی بات ہوگی،اور ایک بہتر اور مناسب قدم ہوگا ۔ لیکن جمہور علماء صدقات واجبہ سے غیر مسلم کی اعانت کو درست قرار نہیں دیتے ہیں البتہ صدقات نافلہ میں اس کی گنجائش نکالتے ہیں۔ 

     صدقة الفطر ادا کرنے کا بہترین اور مسنون وقت عید کے دن عید کو جانے سے پہلے ہے،لیکن اگر پہلے بھی یعنی رمضان میں بھی ادا کردے تو ادائیگی ہو جائے گی بلکہ بعض علماء نے حسن انتظام کے لئے اس کو افضل کہا ہے ۔

       بسا اوقات باہر رہنے والے لوگوں کی طرف سے ان کے عزیز و اقارب اور رشتہ دار صدقۂ فطر ادا کرتے ہیں، اس میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ باضابطہ صریح اجازت لی جائے ۔ اگر گیہوں ادا کر رہا ہے تو عمدہ گیہوں ۱ کلو چھہ سو بتیس گرام ادا کرے اور اگر قیمت ادا کر رہا ہے تو جہاں آدمی رہ رہا ہے وہاں کی قیمت کے لحاظ سے مقدار گیہوں کی قیمت ادا کرے اور اگر ہندوستان میں قیمت زیادہ ہو تو یہاں کی قیمت ادا کرے اس میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہے۔ 

       جو آدمی زکوة لینے کا مستحق ہے ،اسے فطرہ دینا بھی جائز ہے ۔ صدقۂ فطر کے مستحق پاس پڑوس، گاوں اور شہر میں رہنے والے فقراء اور مساکین ہیں، تاکہ وہ بھی *عید* کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں ،بعض لوگ غریبوں کو دینے کے بجائے مدرسہ میں دیتے ہیں، جہاں عید کے بعد بلکہ اس سے پہلے (غریب) کو رخصت رہتی ہے، عید کے بعد جب وہ مدرسہ آتے ہیں تو ان کو پہنچتا ہے، یہاں بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اگر چہ ذمہ دار کو دے دینے سے ادائیگی ہوجاتی ہے، لیکن یہ طریقہ اختیار کرنا زیادہ بہتر نہیں ہے ۔ بعض لوگ خیرات فنڈ کو صدقۂ فطر دے دیتے ہیں، جو غرباء پر خرچ کرنے کے علاوہ خیراتی کاموں میں بھی اس رقم کو خرچ کرتے ہیں ۔ اسی طرح بعض مدارس میں مدات کی رعایت نہیں ہوتی اور یہ رقم عمارت میں خرچ ہو جاتی ہے ،ان تمام صورتوں میں صدقۂ فطر کی ادائیگی مشکوک ہوکر رہ جاتی ہے ،اس لئے احتیاط اور مقصد کی رعایت کرنا ضروری ہے ۔

 ایک فقیر کو ایک صدقۂ فطر دینا مستحب اور بہتر ہے، البتہ کم دینا بھی جائز ہے اور زیادہ دینے کی بھی گنجائش ہے ۔ ( فتاوی رحیمیہ ۸/۲۴۷)

       غیر مسلم محتاج اور فقیر کو صدقۂ فطر دینا کیا جائز ہے؟ 

صحیح قول کے مطابق غیر مسلم  (ہندو،عیسائ،یہودی وغیرہ) کو صدقۂ فطر دینا جائز نہیں ہے، بلکہ *صدقۂ فطر* ادا ہی نہیں ہوگا،احناف میں امام ابو یوسف رح کا قول عدم جواز کا نقل کیا گیا ہے اور حاوی قدسی کے حوالے سے اسی پر فتویٰ نقل کیا گیا ہے، اور امام طحاوی رح نے امام ابو یوسف رح کے قول کو اختیار کیا ہے ۔ علامہ عینی رح نے بھی امام ابو یوسف رح کے قول کو صحیح قرار دیا ہے ۔ غرض اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ صدقۂ فطر غیر مسلم کو دینا جائز نہیں ہے ۔ لیکن کیا حالات کے پیش نظر اور تالیف قلب یعنی غیر مسلم بھائیوں کی دلجوئی کے لئے دینا جائز ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں علماء کرام اور فقہاء عظام کی رائیں الگ الگ ہیں، جمہور علماء کرام کی رائے یہ ہے کہ تالیف قلب کا مصرف ساقط نہیں ہوا ہے بلکہ اب بھی باقی ہے اس لئے اس طور پر یہ رقم غیر مسلم کو بھی وقت ضرورت دے سکتے ہیں ۔ پس اگر موجودہ دور میں تالیف قلب کی واقعی ضرورت پڑے (بلکہ واقعی ضرورت ہے ) تو علماء اور اہل افتاء کے مشورے اور رائے سے غیر مسلم کو بھی مصلحتا صدقۂ فطر دینا درست ہوگا ۔ 

           صدقۂ فطر کی مقدار کی تفصیلات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اسی متعینہ مقدار کو صدقۂ فطر کے طور پر نکالتے تھے ۔ 

صدقۂ فطر کی مقدار کی تفصیلات یہ ہیں ۔ اگر گیہوں دیا جائے تو نصف صاع اور اس کے علاوہ دوسری چیز مثلا جو، کھجور اور کشمش میں ایک صاع دینا واجب ہے ،آج کے رائج اوزان کے لحاظ سے ایک صاع کا وزن تین کلو ایک سو انچاس گرام،دوسو ملی گرام ( ۲۸۰_۱۴۹-۳) ہے ۔ اور اس کا آدھا ایک کلو پانچ سو چوہتر گرام،چھ سو چالیس ملی گرام۔۔۔۔۔( ۶۴۰، ۱۵۷۴) نصف صاع کا وزن ہے ۔ *صدقۂ فطر* میں گاوں، قصبہ یا جو قریبی بازار ہو، وہاں کی قیمت سے صدقۂ فطر ادا کرنا چاہئے، شہر والے شہر کی منڈی کے اعتبار سے *صدقۂ فطر* ادا کریں گے ۔ اگر آدمی گہیوں دے رہا ہے تو اسے نصف صاع یعنی ایک کلو چھ سو گرام احتیاطا نکالنا واجب ہے ۔ بعض علماء نے پونے دو کلو لکھے ہیں وہ بھی احتیاط پر مبنی ہے ۔ اگر قیمت دے دے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن عام بازاری قیمت ہونی چاہئے، کنٹرول کی قیمت سے ادا کرنا درست نہیں، اس لئے کہ اس قیمت سے فقیر بازار سے نصف صاع نہیں خرید سکے گا ۔ ( مستفاد فتاوی رحیمیہ: ۵/ ۱۷۱)

      آج ہم مسلمان صرف گہیوں ہی سے نصف صاع کی قیمت صدقۂ فطر میں نکالتے ہیں کیونکہ یہ سستا پڑتا ہے، اور اس کی قیمت کم ہوتی ہے جبکہ چاہئے یہ تھا کہ *صدقۂ فطر* کے طور پر جن اجناس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تذکرہ کیا ہے اور آپ جس طرح کجھور اور کشمش سے صدقۂ فطر نکالتے تھے ہم کو بھی ان اجناس کی قیمت کے اعتبار سے بھی صدقۂ فطر ادا کرنا چاہئے خاص طور پر جو زیادہ متمول اور مالدار ہیں ان کو تو ضرور اس کا خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ انفع للفقراء ہوگا ۔ گہیوں کے سلسلہ میں نصف صاع اور ایک صاع دونوں طرح کی روایات کتب حدیث میں موجود ہے، اس لئے کبھی کبھی ایک صاع گیہوں کی قیمت بھی ادا کرنا زیادہ بہتر ہوگا تاکہ اس حدیث پر بھی عمل ہوجائے اور فقراء کا بھی فائدہ زیادہ ہو جائے ۔ 

     آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم زیادہ تر کھجور اور کشمش سے صدقۂ فطر ادا کرتے تھے، کیونکہ حجاز میں گہیوں کی پیداوار نہیں ہوتی تھی، حجاز میں گیہوں شام اور یمن سے امپورٹ کیا جاتا تھا ۔ اس لئے جن غذائی اشیاء کو *صدقۂ فطر* کا معیار بنایا گیا تھا ان میں گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی، اس لئے دوسری چیز ایک صاع مقدار میں واجب قرار دی گئیں اور گہیوں نصف صاع ۔ لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ 

اس لئے خاکسار کی رائے یہ ہے کہ جن لوگوں پر صدقۂ فطر واجب ہے ان میں سے جو زیادہ متمول ہیں یا بڑے تاجر ہیں ان کو کجھور اور کشمش کی قیمت سے *صدقۂ فطر* ادا کرنا چاہئے اور جو ان سے کم درجے کے ہیں ان کو بھی نصف صاع گیہوں کے بجائے ایک صاع گہیوں کی قیمت صدقۂ فطر ادا کرنا چاہئے تاکہ تمام روایات پر عمل ہو جائے ۔ یہی رائے استاد محترم جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی بھی ہے ۔

    نوٹ۔ اس مضمون کو متعدد اہل علم کی کتابوں اور تحریر کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

مہیلا مہا ودیالیہ بی ایچ یو کی طالبات کے درمیان ہوا 'اردو بیت بازی' کا انعقاد

نذیر بنارسی کی یوم پیدائش کے موقع ہوگا آل انڈیا مشاعرہ، شامل ہوں گے ملک کے چنندہ شعراء

غزوۂ بدر ، یوم الفرقان