جس کی خزاں یہ ہو ، اس کی بہار مت پوچھ
آخری اسلامی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کا اسلامی کردار
تحریر : محمد محمد حارث
سلطان عبدالحمید ثانی (پ۔ 1842، م۔ 1918) جو کہ 1876 سے 1909 تک اسلامی خلافت کے آخری خلیفہ اور بقول بعضے اسلامی ملوکیت کے آخری بادشاہ گزرے ہیں ۔وہ بقلم خود اپنی معزولی کی وجہ اپنے مرشد جناب محمودابوالشامات کو ایک خط میں ان الفاظ میں لکھتے ہیں
میں آپ کی خدمت میں اور آپ جیسے دوسرے ارباب عقل کی خدمت میں ایک اہم مسئلہ پیش کر تاہوں تاکہ یہ امانت تاریخ کی حفاظت میں آ جائے ۔ میں خلافت اسلامیہ سے صرف اس لئے الگ ہوا ہوں کہ مجھے انجمن اتحاد و ترقی کی طرف سے بہت تنگ کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور خلافت ترک کرنے پر ازحد مجبور کر دیا گیا ۔ سبب یہ ہوا کہ ان اتحادیوں نے مجھ سے بار بار اصرار کیا کہ سر زمین فلسطین میں یہود کے قومی وطن کی تاسیس پر اتفاق کرلوں ۔ ان کے پیہم اصرار کے باوجود میں یہ بوجھ اٹھانے پر راضی نہ ہوا۔ اخیر میں ان لوگوں نے پندرہ کروڑ برطانوی لیرہ سونا دینے کا وعدہ کیا ۔ میں نے قطعی طور پر اس تجویز کو ٹھکرا دیا اور انھیں یہ دو ٹوک جواب دیا : اگر تم لوگ پندرہ کروڑلیرہ سونے کے بجائے دنیا بھر کا سونا دو، تب بھی میں اس بوجھ کو نہیں اٹھاؤں گا۔ میں نے ملت اسلامیہ کی تیس سال سے زیادہ خدمت کی ہے ، اب میں اپنے آباؤاجداد، خلفا ء و سلاطین کی تاریخ کو سیاہ نہیں کروں گا ۔ میں یہ بوجھ قطعی طور پر نہیں اٹھا سکتا۔
قطعی جواب کے بعد ان لوگوں نے مجھے معزول کرنے پر اتفاق کر لیا اور یہ پیغام پہنچا یا کہ وہ مجھے شہر بدر کر کے سلانیکا بھیج دیں گے ۔ میں نے یہ تکلیف گوارا کرلی ۔ اللہ تعالی کی حمد کرتا ہوں کہ میں نے ارض مقدس فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کو تسلیم کر کے دولت عثمانیہ اور عالم اسلام کو اس عیب و عار سے داغدار کرنا قبول نہیں کیا۔ میرے بعد جو ہوا سو ہوا، اس پر بار بار میں اللہ جل شانہ کی حمد و ثناء کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ الخ (مجلہ العربي ، شوال ۱۳۹۲ هدر دسمبر ۱۹۷۲ء)
یہ تذکرہ ہے اس زنجیر کی آخری کڑی کا جس کو ہم جیسے لوگ خلافت اور بعض احباب ملوکیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس دور زوال و انحطاط میں مسلم خلفاء و بادشاہوں کا اسلامی کردار اس قدر مستحکم اور قابل فخر تھا کہ وہ اپنے اسلامی اصولوں پر اپنی حکومت داؤ پر لگانے کو تیار ہو جاتے تھے ، خیرالقرون کے خلفاء کی تو بات ہی جانے دیجئے کہ پھر کیا رہی ہوگی جن کو ہمارے احباب ملوکیت کے بانیین میں سے قرار دیتے ہیں ۔ گویا ایسے ہی حکمرانوں کے سلسلے کے لئے شاعر کہہ گیا
جس کی خزاں یہ ہو ، اس کی بہار مت پوچھ
Comments
Post a Comment